شیعہ مذہب فتاوی رضویہ کی روشنی میں

Maslake Ala-Hazrat Zindabad!

نوٹ: تمام اقتباسات فتاویٰ رضویہ شریف مترجم جلد 14 کے صفحہ نمبر 249 سے 268 سے لئے گئے ہیں۔ مکمل فتویٰ پڑھنے کیلئے اصل کتاب کا مطالعہ کریں۔

تحقیق مقام و تفصیل مرام یہ ہے کہ رافضی تبرائی جو حضرات شیخین صدیق اکبر و فاروق  اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہما خواہ اُن میں سے ایک کی شان پاک میں گستاخی کرے اگرچہ صرف اس قدرکہ انھیں امام و خلیفہ بر حق نہ مانے۔ کتب معتمدہ فقہ حنفی کی تصریحات اور عامہ ائمہ ترجیح و فتوٰی کی تصحیحات پر مطلقاً کافر ہے۔ (آگے اور بھی مضمون ہے)
—————————-
وہیں فتاوٰ ی بزازیہ سے ہے: ویجب اکفارھم باکفار عثمان و علی وطلحۃ و زبیر و عائشۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔ ۳؎رافضیوں، ناصبیوں اور خارجیوں کا کافر کہنا واجب ہے اس سبب سے کہ وہ امیرالمومنین عثمان و مولی علی و حضرت طلحہ و حضرت زبیر و حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کو کافرکہتے ہیں۔ (آگے اور بھی مضمون ہے)
—————————-
فتوی علامہ نوح آفندی،  پھر مجموعہ شیخ الاسلام عبید اللہ آفندی، پھر مغنی المستفتی عن سوال المفتی، پھر عقودالدریۃ مطبع مصر جلد اول ص ۹۲ ، ۹۳ میں ہے: الروافض کفرۃ جمعوا بین اصناف الکفر منھا انھم یسبون الشیخین سوداﷲ وجوھھم فی الدارین فمن اتصف بواحد من ھذہ الامور فھو کافر ملتقطا ۔ ۳؎رافضی کافر ہیں طرح طرح کے کفر وں کے مجمع میں ازانجملہ خلافت شیخین کا انکار کرتے ہیں ازانجملہ شیخین کو بُرا کہتے ہیں: اللہ تعالٰی دونوں جہان میں رافضیوں کا منہ کالا کرے ، جو ان میں کسی بات سے متصف ہو کافرہے۔ ملتقطا۔ (آگے اور بھی مضمون ہے)
—————————-
عقووالدریہ میں بعد نقل فتوٰی مذکورہ ہے: وقد اکثر مشانخ الاسلام من علماء الدولۃ العثمانیۃ لا زالت مؤید ۃ بالنصرۃ العلیۃ الافتاء فی شان الشیعۃ المذکورین وقد اشبع الکلام فی ذٰلک کثیر منھم والّفوافیہ الرسائل وممن افتی بنحوذٰلک فیھم المحقق المفسر ابوا السعود اٰفندی العما دی و نقل عبارتہ العلامۃ الکواکبی الحلبی فی شرحہ علی منظومتہ الفقھیۃ المسماۃ بالفرائد السنیۃ۔ ۲؎علمائے دولتِ عثمانیہ کہ ہمیشہ نصرت الٰہی سے موید رہے، اُن سے جو اکابر شیخ الاسلام ہوئے انھوں نے شیعہ کے باب میں کثرت سے فتوے دئے ، بہت نے طویل بیان لکھے اور اس بارے میں رسالے تصنیف کئے، اور انھیں میں سےجنھوں نے روافض کے کفر و ارتداد کا فتوٰی دیا ۔ محقق مفسر ابو سعود آفندی عمادی (سردار مفتیان دولت علیہ عثمانیہ ) ہیں اور اُس کی عبارت علامہ کو اکبی حلبی نے اپنے منظومہ فقہیہ مسمی بہ فرائد سنیہ کی شرح میں نقل کی۔ (آگے اور بھی مضمون ہے)
—————————-
بلکہ بہت اکابر نے تصریح فرمائی کہ رافضی تبرائی ایسےکافر ہیں جن کی تو بہ بھی قبول نہیں،

تنویر الابصار متن درمختار مطبع ہاشمی ص ۳۱۹ میں ہے:کل مسلم ارتد فتو بتہ مقبولۃ الا الکافر بسب النبی اوالشیخین او احدھما۔ ۱؎ہر مرتد کی توبہ قبول ہے مگر وہ جو کسی نبی یا حضرات الشیخین یا ان میں ایک کی شان میں گستاخی سے کافر ہو۔ (آگے اور بھی مضمون ہے)
—————————-
اشباہ والنظائر قلمی فن ثانی کتاب السیر اور فتاوٰی خیریہ مطبوعہ مصر جلد اول ص ۹۴، ۹۵ اور اتحاف الابصار والبصائر مطبوعہ مصر ص ۱۸۶ میں ہے: کافر تاب فتو بتہ مقبو لۃ فی الدنیا والاٰخرۃ الاجماعۃ الکافر بسب النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وسائر الا نبیاء وبسب الشیخین اوا حد ھما ۲؎جو کافر توبہ کرے اس کی توبہ دُنیا و آخرت میں قبول ہے مگر کچھ کافر ایسے ہیں جن کی توبہ مقبول نہیں ایک وُہ جو ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خواہ کسی نبی کی شان میں گستاخی کے سبب کافر ہوا ، دوسرا وہ کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما دونوں یا ایک کو بُرا کہنے کے باعث کافر ہوا۔ (آگے اور بھی مضمون ہے)
—————————-
اور روافضِ زمانہ تو ہر گز صرف تبرا ئی نہیں بلکہ یہ تبرائی علی العموم منکر ان ضروریات دین اور باجماع مسلمین یقیناً قطعاً کفار مرتدین ہیں یہاں تک کہ علمائے کرام نے تصریح فرمائی کہ جو انھیں کافر نہ جانے خود کافر ہے، بہت عقائد کفریہ کے علاوہ دو کفر صریح میں اُن کے عالم جاہل مرد عورت چھوٹے بڑے سب بالا تفاق گرفتار ہیں:

کفر اول: قرآن عظیم کو ناقص بتاتے ہیں، کوئی کہتا ہے اُس میں سے کچھ سُورتیں امیر المومنین عثمان غنی ذوالنورین یا دیگر صحابہ اہلسنت رض اللہ تعالٰی عنہم نے گھٹا دیں،کوئی کہتا ہے اُس میں سے کچھ لفظ بدل دئے ، کوئی کہتا ہے یہ نقص و تبدیل اگرچہ یقینا ثابت نہیں محتمل ضرور ہے اور جو شخص قرآن مجید مین زیادت یا نقص یا تبدیل کسی طرح کے تصرفِ بشری کا دخل مانے یا اُسے محتمل جانے بالا جماع کافر مرتد ہے کہ صراحۃً قرآن عظیم کی تکذیب کر رہا ہے ۔

اللہ عز وجل سورہ حجر میں فرماتاہے: انا نحن نزلناالذکر وانا لہ لحافظون۔ ۳؎بیشک ہم نے اتارا یہ قرآن اور بیشک بالیقین ہم خوداس کے نگہبان ہیں۔ (آگے اور بھی مضمون ہے)
—————————-
کفر دوم: ان کا ہر تنفس سیدنا امیر المومنین مولٰی علی کرم اللہ وجہہ الکریم و دیگر ائمہ طاہر ین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کو حضرات عالیات انبیائے سابقین علیہم الصلوۃ والتحیات سے افضل بتاتا ہے اور جو کسی غیر نبی کو نبی سے افضل کہےباجماع مسلمین کافر بے دین ہے۔ شفا ء شریف صفحہ ۳۶۵ میں انہی اجماعی کفروں کے بیان میں ہے:وکذٰ لک نقطع بتکفیر غلاۃ الرافضۃ فی قولھم ان الائمۃ افضل من الانبیاء۔ ۳؎اور اسی طرح ہم یقینی کافر جانتے ہیں اُن غالی رافضیوں کو جوائمہ کو انبیاء سے افضل بتاتے ہیں۔

 (۳؎ الشفا ء بتعریف حقوق المصطفیٰ    فصل فی بیان ماھو من المقالات        ۲/ ۲۷۵)

(آگے اور بھی مضمون ہے)
—————————-
روافض علی العموم اپنے مجتہدوں کے پیرو کار ہوتے ہیں، اگر بفرض غلط کوئی جاہل رافضی ان کُھلے کفروں سے خالی الذہن بھی ہو تو فتوائے مجتہدان کے قبول سے اُسے چارہ نہیں اور بفرض باطل یہ بھی مان لیجئےکہ کوئی رافضی ایسا نکلے جو اپنے مجہتدین کے فتوٰی بھی نہ مانے تو الاقل اتنا یقینا ہو گا کہ ان کفروں کی وجہ سے اپنے مجتہدوں کو کافر نہ کہے گا، بلکہ اُنھیں اپنے دین کا عالم و پیشوا و مجتہد ہی جانے گا اور جو کسی کافر منکر ضروریات دین کو کافر نہ مانے خود کافر مرتد ہے۔ (آگے اور بھی مضمون ہے)
—————————-
شفا ء شریف ص ۳۶۲ میں انھیں اجماعی کفر کے بیان میں ہے: ولھذا نکفر من لم یکفر من دان بغیر ملۃ المسلمین من الملل او وقف فیھم اوشک اوصحح مذھبھم وان اظھر مع ذلک الاسلام واعتقدہ واعتقد ابطال کل مذھب سوا ہ فھو کافر باظھا رہ بھا ظھر من خلاف ذلک۔ ۱؎ہم اسی واسطے کافر کہتے ہیں ہر اس شخص کو جو کافروں کو کافر نہ کہے یا ان کی تکفیر میں توقف کرے یا شک رکھے یا اُن کے مذہب کی تصحیح کرے اگر چہ اس کے ساتھ اپنے آپ کو مسلمان جتاتا اورا سلام کی حقانیت اور اس کے سواہر مذہب کے باطل ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو کہ وہ اُس کے خلاف اُس اظہار سے کہ کافرکو کافر نہ کہا خود کافر ہے۔

(۱؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی   فصل فی بیان ماھومن المقالات المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ ص ۲۷۱)

اُسی کے صفحہ ۳۲۱اور فتاوٰ ی بزازیہ جلد ۲ صفحہ ۳۲۲ اور درر وغر رمطبع مصر جلد اول صفحہ ۳۰۰ اور فتاوٰی خیر یہ جلد اول صفحہ ۹۴،۹۵ اور درمختار صفحہ ۳۱۹اور مجمع الانہر جلد اول صفحہ ۶۱۸ میں ہے:من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر۔۱؎جو اس کے کفر وعذاب میں شک کرےوہ بالیقین خود کافر ہے۔

 (۱؎ درمختار  کتاب الجہاد باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۵۶)

علمائے کرام نے خود روافض کے بارے میں بالخصوص اس حکم کی تصریح فرمائی، علامہ نوح آفندی وشیخ الاسلام عبداﷲ آفندی وعلامہ حامد عمادی آفندی مفتی دمشق الشام وعلامہ سید ابن عابدین شامی عقود جلد اول ص۹۲ میں اس سوال کے جواب میں کہ رافضیوں کے باب میں کیا حکم فرماتے ہیں:ھٰؤلاء الکفرۃ جمعوا بین اصناف الکفر ومن توقف فی کفرھم فھو کافر مثلھم۲؎اھ مختصرا۔یہ کافر طرح طرح کے کفروں کے مجمع ہیں جو ان کے کفر میں توقف کرے خود انہیں کی طرح کافر ہے اھ مختصراً۔

 (۲؎ العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوٰی حامدیہ    باب الردۃ والتعزیر     ارگ بازار قندھار افغانستان    ۱/ ۰۴۔۱۰۳)

علامۃ الوجود مفتی ابوالسعود اپنے فتاوٰی پھر علامہ کو اکبی شرح فرائد سنیہ پھر علامہ محمد امین الدین شامی تنقیح الحامدیۃ ص۹۳میں فرماتے ہیں: اجمع علماء الاعصار علی ان من شک فی کفرھم کان کافرا۳؎۔تمام زمانوں کے علماء کااجماع ہے کہ جوان رافضیوں کے کفر میں شک کرے خود کافر ہے۔ (آگے اور بھی مضمون ہے)
—————————-
بالجملہ ان رافضیوں تبرائیوں کے باب میں حکم یقینی قطعی اجماعی یہ ہے:

کہ وہ علی العموم کفار مرتدین ہیں اُنکے ہاتھ کا ذبیحہ مردار  ہے ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خالص زناہے، معاذاللہ مرد رافضی اور عورت مسلمان ہو تو یہ سخت قہر الٰہی ہے۔، اگر مردسُنی اور عورت ان خبیثوں میں کی ہو جب بھی ہر گز نکاح نہ ہو گا محض زنا ہو گا، اولاد ولد الزنا ہوگی باپ کا ترکہ نہ پائےگی اگرچہ اولاد بھی سُنی ہی ہو کہ شرعاً ولد ا لزنا کا باپ کوئی نہیں، عورت نہ ترکہ کی مستحق ہو گی نہ مہر کی کہ زانیہ کےلئے مہر نہیں، رافضی اپنے کسی قریب حتی کہ باپ بیٹے ماں بیٹی کا بھی ترکہ نہیں پاسکتا۔ سُنی تو سنی کسی مسلمان بلکہ کسی کافر کے بھی یہاں تک کہ خود اپنے ہم مذہب رافضی کے ترکہ میں اس کا اصلا  کچھ حصہ نہیں،ان کے مرد عورت عالم جاہل کسی سے میل جول ، سلام کلام سب سخت کبیرہ اشد حرام، جوان کے ان ملعون عقیدوں پرآگاہ ہوکر پھر بھی انھیں مسلمان جانے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے باجماع تمام ائمہ دین خود کافر بے دین ہے، اور اُس کےلئے بھی یہی سب احکام ہیں جو اُن کےلئے مذکور ہُوئے ،مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس فتوی کو بگوش ہوش سنیں ۔ اور اس پر عمل کرکے سچے پکے مسلمان سنی بنیں وبا ﷲ التوفیق واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔

    Don`t copy text!